چار بیوقوف بھائیوں کا قصہ
🎁 Access Your Content Now
Click the button below to continue to the content:
p> قدیم زمانے کی بات ہے، ایک گاؤں میں ایک بوڑھا کسان اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اُس کے پاس ایک خوبصورت، تیز رفتار اور وفادار گھوڑا تھا۔ چاروں بیٹوں میں سب سے چھوٹا لاڈلا تھا، لیکن سب گھوڑے کو چاہتے تھے۔ بوڑھے کسان کی زندگی کا آخری وقت آیا، تو اُس نے گھوڑے کو چاروں بیٹوں کی امانت بنا کر چھوڑ دیا۔باپ کے انتقال کے بعد ایک دن بیٹوں میں جھگڑا ہونے لگا۔
"گھوڑا کس کا ہوگا؟"
سب نے کہا، "ہم سب کا!"
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایک گھوڑے کو چار حصوں میں کیسے بانٹا جائے؟
اسی بحث میں ایک راہگیر وہاں سے گزرا۔ اُس نے بات سنی اور مشورہ دیا:
"تم لوگ گھوڑا بازار میں بیچ دو، اور پیسے چار حصوں میں بانٹ لو۔"
سب کو یہ تجویز پسند آئی۔ اگلے دن وہ چاروں بھائی گھوڑے کو ساتھ لے کر شہر جانے لگے۔ راستے میں جنگل آ گیا، رات ہو چکی تھی، تھکن بھی تھی۔ ایک درخت کے نیچے آرام کیا اور سو گئے۔ لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ ایک چور ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
چور رات کے اندھیرے میں چپکے سے آیا، گھوڑے کی رسی کھولی، اور گھوڑے کو لے کر فرار ہو گیا۔
صبح ایک بھائی کی آنکھ کھلی، اُس نے گھوڑے کو غائب پایا۔ سب گھبرا کر جاگے، شور مچا:
"ہمارا گھوڑا چوری ہو گیا!"
دوسرا بولا، "ارے سو جاؤ، رمضان خان لے گیا ہوگا۔ صبح دیکھیں گے۔"
تیسرے نے کہا، "نہیں، ہمیں ابھی تلاش کرنا چاہیے۔"
وہ جنگل میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگے۔ کچھ دور انہیں زمین پر قدموں کے نشان دکھائی دیے۔
ایک بھائی نے غور سے دیکھا اور کہا،
"یہ تو اونٹ کے قدموں کے نشان ہیں!"
دوسرا بولا، "اونٹ نر تھا، نشان گہرے ہیں!"
تیسرا بولا، "اس کی ایک آنکھ اندھی تھی، کیونکہ ایک طرف کے نشان سیدھے نہیں جا رہے۔"
چوتھے نے کہا، "اور رسی بھی ٹوٹی ہوئی ہے، مطلب اونٹ بھاگا ہوگا۔"
اتنے میں پیچھے سے ایک آدمی آیا، اُس نے ان باتوں کو سنا اور بولا،
"تم لوگ جھوٹ بول رہے ہو، تم نے میرا اونٹ چرا لیا ہے! تم سب جادوگر لگتے ہو!"
بھائیوں نے حیرت سے کہا،
"ہم نے کچھ نہیں چرایا، ہم تو خود اپنے گھوڑے کی تلاش میں ہیں!"
وہ شخص غصے سے انہیں قاضی کے پاس لے گیا۔
قاضی نے ان کی بات سنی اور پوچھا،
"تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اونٹ نر ہے، اندھا ہے، رسی ٹوٹی ہے؟"
ایک بھائی نے جواب دیا،
"ہم نے زمین پر صرف ایک طرف کے سبز پتوں کے نشان دیکھے، مطلب اونٹ کی ایک آنکھ اندھی تھی۔ نر ہونے کا اندازہ اس کے قدموں کی چوڑائی اور جسم کے وزن سے ہوا۔ اور جو گھاس وہ کھا رہا تھا، وہ کچھ جگہ جمی ہوئی تھی، مطلب وہ بندھا ہوا تھا، لیکن رسی کے نشان ختم ہو رہے تھے، اس لیے سمجھا کہ رسی ٹوٹ گئی۔"
قاضی متاثر ہوا اور بولا،
"تم لوگ جھوٹے نہیں ہو، عقل مند ہو!"
پھر قاضی نے اُس آدمی کو تنبیہ کی کہ آئندہ شکایت سوچ سمجھ کر کرے۔ قاضی نے بھائیوں سے کہا،
"تمہارا گھوڑا چوری ہوا ہے؟ تو جاؤ، اُس کے قدموں کے نشان تلاش کرو جیسے تم نے اونٹ کے پہچانے!"
چاروں بھائی خوشی خوشی روانہ ہوئے۔ نشانوں کا پیچھا کرتے کرتے وہ ایک بستی پہنچے۔ وہاں کے ایک لڑکے نے بتایا،
"کل رات ایک آدمی ایک خوبصورت گھوڑے کے ساتھ آیا تھا، وہ اُسے بیچنے کی بات کر رہا تھا۔"
بھائی دوڑ کر بازار پہنچے اور وہاں چور کو گھوڑے کے ساتھ پکڑ لیا۔ لوگوں نے چور کو گھیر لیا۔ چور نے اقرار کیا کہ اُس نے جنگل سے گھوڑا چوری کیا تھا۔
قاضی کو بلا کر چور کو حوالہ کیا گیا، اور قاضی نے اُسے سزا دی۔ گھوڑا چاروں بھائیوں کو واپس مل گیا۔
گھر واپسی پر وہ سب ہنس رہے تھے۔
سب سے بڑا بھائی بولا،
"شکر ہے ہم نے آپس میں جھگڑا نہیں کیا، ورنہ نہ گھوڑا ملتا، نہ عقل استعمال ہوتی!"
دوسرا بولا،
"اور نہ ہی ہم یہ جان پاتے کہ ہماری سمجھ بوجھ کتنی کام آ سکتی ہے!"
چھوٹے بھائی نے کہا،
"باپ دادا کا مال بانٹنے سے پہلے سمجھداری سے بات کرنا ضروری ہے۔"
اور یوں، چاروں بھائی نہ صرف گھوڑا واپس لائے بلکہ ایک بڑی سمجھداری کا سبق بھی سیکھا۔
Comments
Post a Comment