بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
Your File is Ready
Click the button below to proceed to download:
ایمان اور راستبازی کا راستہ ہمیں سکون اور حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ
کہانی کابل کی گلیوں سے غزنی کے شاندار دربار تک دو غریب دوستوں کی ہے جو اپنی
قسمت بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
آغازِ سفر
کابل کی شام تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور بازاروں کی رونقیں مدھم ہو رہی تھیں۔
حسن اور عمر، دو قریبی دوست، ایک پرانے درخت کے نیچے اپنی قسمت پر افسوس کر رہے
تھے۔
حسن ایک کاریگر تھا جو کسی زمانے میں اپنے فن میں مشہور تھا، لیکن اب بے روزگاری
کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور تھا۔ عمر، جو کبھی اپنے کھیتوں پر فخر کرتا تھا،
آج اپنی بنجر زمین کی فکروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
مایوسی میں عمر نے کہا: "کیا تم نے کبھی سوچا ہے ہم اپنی زندگی کیسے گزار رہے
ہیں؟"
حسن نے جواب دیا: "شاید ہمیں کچھ بڑا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں نے سنا ہے سلطان
محمود غزنی بہت انصاف پسند ہے، شاید وہ ہماری مدد کرے۔"
یہ خیال دونوں کے دلوں میں امید کی کرن جگا گیا اور انہوں نے غزنی جانے کا فیصلہ
کر لیا۔
بابا یونس کی ملاقات
سفر کے دوران ان کی ملاقات بابا یونس سے ہوئی، جو سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے اور
چہرے پر سکون تھا۔
حسن نے پوچھا: "بابا جی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟"
بابا یونس نے مسکرا کر کہا: "میں اللہ کی رضا میں رہتا ہوں اور جہاں ضرورت ہو،
لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔"
عمر نے حیران ہو کر پوچھا: "آپ کے پاس نہ دولت ہے نہ طاقت، پھر آپ اتنے مطمئن
کیسے ہیں؟"
بابا یونس نے کہا: "بیٹا! سکون اللہ کی رضا میں ہے، مال میں نہیں۔ جو محنت کرتا
ہے اور دل صاف رکھتا ہے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔"
حسن اور عمر بابا یونس سے متاثر ہوئے اور انہیں اپنے ساتھ غزنی چلنے کی دعوت دی،
جو بابا یونس نے قبول کر لی۔
سلطان محمود کا دربار
تینوں غزنی پہنچے۔ سلطان محمود کا شاندار دربار اپنی عظمت کے ساتھ لوگوں کی فریاد
سننے کے لیے کھلا تھا۔
جب ان کی باری آئی، حسن نے کہا: "اے سلطان! میں ایک کاریگر ہوں لیکن قسمت نے ساتھ
چھوڑ دیا۔ براہِ کرم میری مدد کریں تاکہ میں دوبارہ کام کر سکوں۔"
عمر نے کہا: "سلطان! میں ایک کسان ہوں، زمین بنجر ہو چکی ہے۔ اگر آپ مجھے زمین
دیں تو میں محنت سے روزی کما سکتا ہوں۔"
سلطان نے بابا یونس سے پوچھا: "بابا! تمہیں کیا چاہیے؟"
بابا یونس نے مسکرا کر کہا: "مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرے لیے اللہ کی رضا ہی کافی
ہے۔ میری دعا ہے آپ ہمیشہ عدل کریں اور لوگوں کی مدد کریں۔"
سلطان نے حسن کو دولت، عمر کو زمین اور بابا یونس کو عزت کے ساتھ رخصت کیا۔
آزمائش اور انجام
حسن اور عمر دولت اور زمین ملنے پر خوش ہوئے، لیکن ان کے دل میں لالچ اور غرور آ
گیا۔ انہوں نے سوچا بابا یونس کا اللہ پر بھروسہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
انہوں نے سلطان کے سامنے جھوٹ بولا کہ بابا یونس ان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔
سلطان نے تحقیق کے بغیر بابا یونس کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔
قید میں بابا یونس نے اللہ سے دعا کی: "یا اللہ! تو جانتا ہے میں بے قصور ہوں۔
مجھے انصاف عطا فرما۔"
ایک نیک وزیر نے بابا یونس کا مقدمہ دوبارہ کھولا اور تحقیق کی تو حقیقت سامنے آ
گئی کہ حسن اور عمر نے جھوٹ بولا تھا۔
سلطان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، بابا یونس کو رہا کیا اور حسن و عمر کو ان کی
دولت اور زمین سے محروم کر دیا۔
بابا یونس نے بدلہ نہیں لیا بلکہ باقی زندگی غریبوں کی مدد میں گزار دی۔ ان کی
سادگی اور نیکی نے سب کے دل جیت لیے۔
سبق
بابا یونس ہمیں سکھاتے ہیں کہ اللہ پر بھروسہ کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
دولت اور طاقت وقتی ہیں، اللہ کی رضا ہی اصل کامیابی ہے۔
یہ کہانی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم سوچیں: "کیا ہم حسن اور عمر کی طرح لالچ کے
پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ یا ہم بابا یونس کی طرح ایمان اور سچائی کے راستے پر ہیں؟"
کیا آپ کسی کے لیے بابا یونس بن سکتے ہیں؟
آئیے! اپنی زندگی بہتر بنائیں، اللہ پر بھروسہ کریں اور نیکی پھیلائیں۔ ان شاء
اللہ ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر چل پڑے گی۔
اجازت چاہتا ہوں اس دعا کے ساتھ: اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ خوش رہیں،
مسکراتے رہیں۔ خدا حافظ!
Nice story zabardest
ReplyDelete